کالم

انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی سے کھاد کا بحران گندم کی فصل متاثرہ

تحریر:ملک عبدالرحمٰن سامٹیہ

جیسا کہ تمام قارئین کو علم ہے پاکستان گزشتہ دو تین سال سے گندم بحران کا شکار ہے اور اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان گندم بیرون ملک سے درآمد کر رہا ہے بیرون ممالک سے درآمد شدہ گندم مہنگی پڑتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے گندم بحران کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ چند عوامل بہت اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں ہر ملک کی ایک زرعی پالیسی ہوتی ہے اور اسی زرعی پالیسی کے تحت حکومت وقت اپنے ملک کی غذائی ضروریات کے اہداف حاصل کرتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے پیارے وطن پاکستان میں زراعت کا شعبہ بے ہنگم ہے اور یہاں زرعی پالیسی کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے محکمہ زراعت اور کسان کے درمیان ایک مافیا حائل ہے محکمہ زراعت کسانوں کے مفادات کے بجائے مافیا کے مفادات کا تحفظ کرتا نظر آتا ہے
یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو ان کی محنت کا ثمر نہیں ملتا اور مافیا دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا نظر آتا ہیگندم کی فصل کو اگر کسان کا بنک کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔
کیونکہ گندم واحد فصل جسے کسان پورا سال ضرورت کے مطابق فروخت کر کے اپنی گھریلو ضروریات کے علاؤہ اپنی فصلوں اور مویشیوں کے اخراجات پورے کرتا ہیاس طرح پورا سال کسان اپنی ضروریات کے مطابق گندم مارکیٹ میں فروخت کرتا تھا اور پورا سال گندم مارکیٹ میں دستیاب رہتی تھی حکومت پاکستان نے ایک زرعی پالیسی بنائی جس تحت کسانوں کو صرف 25 من گندم رکھنے کی اجازت دی گئی اس پالیسی کے تحت نہ صرف زبردستی گندم کسانوں کے گھروں سے اٹھا لی گئی بلکہ کسانوں کی چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیاکسانوں نے خوف زدہ ہو کر کچھ گندم حکومت کو فروخت کی لیکن اوپن مارکیٹ میں گندم کا زیادہ ریٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ گندم مافیا خریدنے میں کامیاب ہو گیامافیا نے گندم کسانوں سے خریدنے کے بعد اس گندم کو اپنے پرائیویٹ گوداموں میں ذخیرہ کر لیا۔سرکاری افسران کیونکہ مافیا کی سرپرستی کرتے ہیں اس لیے مافیا آج وہی گندم دگنے داموں مارکیٹ میں فروخت کر رہا ہیدوسری وجہ جیسے ہی گندم کی کاشت سیزن قریب آتا ہے کھاد، بیج، پیسٹی سائیڈ مافیا متحرک ہو جاتا ہیاور کھاد، بیج اور پیسٹی سائیڈ کو مارکیٹ سے غائب کر دیا جاتا ہے طلب اور رسد کے اس گورکھ دھندے میں ملوث مافیا زرعی مداخل کی دگنی قیمت وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کسان ہمیشہ حکومتی اداروں کی جانب مدد کا منتظر رہتا ہیرواں برس بھی اس وقت بالکل یہی صورت حال ہیمافیا نے پہلے ڈی اے پی کھاد مارکیٹ سے غائب کی اور اس کو دگنے داموں فروخت کیاڈی اے پی کھاد بلیک میں 14500 روپے تک فروخت ہو رہتی اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ڈی اے پی کھاد کے بعد جیسے ہی گندم کے پہلے پانی کا وقت قریب آیا تو کھاد مافیا نے یوریا کھاد کو مارکیٹ سیغائب کر دیااس وقت کھاد مافیا یوریا کھاد 4500 بلیک میں فروخت کر رہے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہیکرپٹ بیوروکریسی جو کسانوں کے گھروں سے زبردستی گندم اٹھنے میں پیش پیش نظر آتی تھی آج دور دور تک نظر نہیں رہی کسان جو کہ پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہیں اگر کسان اپنی گندم کی فصل میں ٹھیک طریقے سے کھادوں کا استعمال کرنے میں ناکام رہا تو اس کے اثرات گندم کی پیداوار پر مرتب ہونگیاس مرتبہ اگر گندم کی پیداوار کم ہوئی تو اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہو گی کیونکہ حکومت کسانوں کو کنٹرول ریٹ پر کھادیں دینے میں ناکام رہی ابھی بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے اور کھادیں کسانوں کو کنٹرول ریٹس پر دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ورنہ اگلے برس گندم کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے گزشتہ برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی کسانوں کو سبسڈی کا لولی پاپ دیا گیاسبسڈی کے ٹوکن کسانوں تک پہنچ سے پہلے ہی سود خور تاجر سکریچ کر لیتے اور کسان بے چارے منہ تکتے رہ جاتے ہیں حکومت وقت سے التماس ہے کہ ہم کسان ہیں بھکاری نہیں ہمیں سبسڈی نہیں چاہیئے ہمیں ہماری اجناس کے مناسب ریٹ چاہییکیونکہ کسان کو زرعی مداخل عالمی منڈی کے مطابق مل رہے ہیں اس لیے اجناس کا ریٹ بھی عالمی منڈی کے مطابق طے کیا جائے۔خالق کائنات میرے پیارے وطن پاکستان کو اپنے حفظ وامان رکھے اور ہمیں انصاف پسند حکمران نصیب کرے۔آمین

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button