
پنجاب میں گزشتہ کئی سالوں سے سموگ نے بڑھنا شروع کر دیا جس کا پھیلاؤ اب صوبہ سندھ تک جا پہنچا ہے حکومتی اقدامات اور قوانین اتنے سلو اور ناکافی ہیں جو فوٹو سیشن کی حد تک محدود ہو چکے ہیں عوام میں بیماریاں اتنی پھیل چکی ہیں کہ ہر تیسرا شخص اسموگ سے متاثرہ ہے اور خصوصی طور پر چھوٹے بچے وسیع تعداد میں سانس کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں تمام چلڈرن ہیلتھ کلینکس پہ چلے جائیں یا ڈی ایچ کیو بنیادی مراکز صحت ان میں رپورٹ شدہ کیسز میں دیکھیں تو بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اس کے بعد بوڑھے اور دیگر مرد و خواتین بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں اس کے لیے وسیع قانون سازی کی ضرورت تھی جو پنجاب حکومت نے نہ کی نہ وفاقی سطح پر اس کو دیکھا گیا اسمبلی میں اتنی وسیع پیمانے پر اصلاحاتی بلز پاس کروائے جس کو لکھتے لکھتے کئی وقت لگیں گے لیکن عوامی فلاح کا یہ چھوٹا سا کام حکومت نے نہ کیا اگر اس کے لیے ایک سخت قانون بنا دیا جاتا اور بھاری جرمانہ عائد ہوتے سمری ٹرائل کے ذریعے سزائیں ہوتی اور جانچ پڑتال کرنے والے اداروں کو مانیٹرنگ کرتے ہوئے بھاری جرمانے کرنے کا اختیار دے دیا جاتا تو اس کے متبادل کسان سوچتا اور کسان کو اس کا فائدہ بھی ہے جس کے لیے محکمہ زراعت کی کوتاہی ہے کہ انہوں نے اس سے اگاہ نہ کیا ملک میں مشینری بھی موجود ہے کہ جو ہی یہ بڑی فصلات چاول کی کاٹی جاتی ہے تو اس کی باقیات سورج مکھی کی باقیات کپاس کی باقیات کو کس طرح سے محفوظ کر کے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ہے کاشتکار گھسے پٹے پرانے طریقہ کار کے مطابق اگ لگا دیتا ہے حتی کہ گندم کی کٹائی کے بعد بھی وہ واقعات کو اگ لگا دیتا ہے یہ موجب بنا ہے جو بیماریوں کا بحث بن رہا ہے حکومت نے ابھی تک کہیں بھی نہ تو سخت قوانین لگائے ہیں نہ ہی اس کے بارے میں کچھ سوچا ہے بلکہ چند محکمے مانیٹرنگ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جو صرف معمولی جرمانہ کرتے ہیں اور ان کی اپروچ چند کھیتوں تک ہوتی ہے دیگر وہ کہیں بھی نہیں جاتے کوڑا کرکٹ کو اگ لگانا ایک عام سی بات ہے اس کے لیے ایک بہت بڑی اگاہی مہم چلانی چاہیے وہ بھی نہیں چلائی گئی کاشتکاروں کے فارمرز ڈیز اور بڑے بڑے سیمینار کرتے ہوئے انہیں بھی اگاہ کر دیا جانا ضروری ہے کہ وہ اس کی باقیات کو دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں اور اس سے معاشی فوائد بھی حاصل کریں اور اسموک سے بھی شہری محفوظ رہیں اسی طرح قانون سازی کرتے ہوئے بھاری جرمانے اور مقدمات کا اندراج یہ بھی ضروری ہے جس پر غور نہیں کیا گیا نگران حکومت نے صرف یہ کہہ دینا کہ ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا لازمی ہے اب اس کی اڑ میں پولیس شہریوں کو تنگ کرنا شروع کر دے گی لیکن یہ حل نہیں ہے کیونکہ اسموک کا معاملہ جس تیزی کے ساتھ گھمبھیر ہوتا جا رہا ہے اس کے بحث یہ ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے کیونکہ سموگ پنجاب کے 10 ازلہ تک اب محدود نہیں رہی بلکہ صوبہ سندھ تک کی کئی اضلاع اس سے متاثر ہو رہے ہیں شہریوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا چونکہ حکومتی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ صحت عامہ جیسے بنیادی مسئلے کو بھی نظر انداز کرنے کی پالیسی جاری ہے جو کہ ایسا ہی معاملہ سموک اور ڈینگی کا ہے ڈینگی سے بھی ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اسی طرح دوسری طرف حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی جا رہی سوائے فوٹو سیشن کے وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک ہفتے کے لیے حکومت کی جانب سے ماسک پہننے کو جو لازمی قرار دیا گیا ہے تو اس سے امید تو کی جاتی ہے کہ اگر سنجیدگی سے عمل درامد کیا گیا تو بیماریوں سے شہری محفوظ رہیں گے لیکن اگر اسے بھی درگزر کیا گیا یا چند جرمانوں تک محدود رکھا گیا تو پھر اس کے اثرات بھی برامد نہیں ہوں گے اور یہ اصلی حل بھی نہیں ہے اس کا اصل حل موثر قانون سازی کاشتکاروں کو اگاہی اور تمام فصلوں کی باقیات کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقہ کار بتانا متعلقہ مشینری کی زیادہ سے زیادہ فراوانی سستے ذرائع مہیا کر کے ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں ورنہ یہ سموگ بیماری کی شکل میں نکلتے نکلتے کافی حد تک پھیل جائے گی جس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا