
موجودہ عدالتی نظام اصلاح طلب ہونے کے قابل ہی نہیں ہو چکا بلکہ اس قدر گھمبھیر خرابیاں پیدا کر رہا ہے کہ 1947 کے بعد 73 کے آئین کے زیر تابع بھی جو قوانین دوبارہ انگریزی سسٹم کے تحت نوک پلک درست کرتے ہوئے لائے گئے ان میں بھی وہی غلامانہ طرز عمل اور انگریز کے دیے ہوئے ہیں قوانین کا تسلسل ہے کیونکہ پاکستان میں نچلی عدالت سے لے کر اعلی عدلیہ تک اس نظام کو اب زنگ لگ چکا ہے کیونکہ دادا کا کیس اب پوتا عدالتوں میں بھگت رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس طویل سفر میں اس کو عدالت کی چوکھٹ پر کتنی بار جانا پڑا ہوگا جب اس کا دادا اس کے بعد اس کا باپ اور آج پوتا جا رہا ہے لیکن اسے ابھی بھی انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے اس پیچیدہ اصلاح طلب عدالتی سسٹم میں یہ بات آڑے ا رہی ہے کہ جب نچلی عدالت سے فیصلہ ہو جاتا ہے تو درمیانی اور اعلی عدلیہ میں جاتے جاتے مقدمات کا اتنا رش ہو چکا ہے کہ وہ غریب آدمی جو اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ وہ مقدمات کا سامنا کرتا ہوا ان کی پیروی کر سکے جس میں وکلا صاحبان کی فیس بھی اڑے اتی ہیں بسا اوقات اس کے پاس اس کے لیے بھی رقم نہیں ہوتی پھر اس نظام میں جہاں یہ پیچیدگیاں تاخیری حربے اور اتنی دیر تک فیصلوں کا نہ ہونا ہے وہاں کوئی پیرامیٹر ایسا نہیں ہے کہ عدالتوں میں وکلا صاحبان کو کتنی فیس دی جائے اس لیے اس پر اصلاحات اور ریفارمز کی ضرورت ہے تاکہ انصاف عام آدمی کو بھی میسر ہو کیونکہ معاشرے سماجی انصاف پر مبنی جب ہو جائیں تو ملک معاشی اور سیاسی طور پر استحکام میں آ جاتے ہیں اور ان کی ترقی کی رفتار بڑہ جاتی ہے ہمارے ہاں ایسا ہے کہ ترقی کی رفتار بڑھنے کی بجائے نیچے چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ کہیں نہ کہیں خرابی ایسی ہے جو ان کے خاتمے میں آڑے آ رہی ہے اس کو ہماری منتخب اسمبلیاں دور کر سکتی ہیں لیکن انہوں نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے ایسا نہیں کیا اور مٹھی بھر اشرافیہ 24 کروڑ عوام کو اپنا غلام بنا کر آج بھی تمام وسائل پر قابض رہتے ہوئے زندہ و تابندہ ہے جبکہ عام آدمی سماجی انصاف نہ ملنے کی وجہ سے معاشی دلدل میں بھی دھنس گیا ہے اس کے لیے اب روٹی کا حصول بھی مشکل مراحل میں ہے ہر ایک بزنس ان کے قبضے میں ہے کیونکہ قوانین کو انہوں نے موم کی گڑیا سمجھ کر مروڑ کے رکھا ہوا ہے اور اپنی من مرضی سے استعمال میں لا کر ایسا فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ عام آدمی ہر روز ایک گہری کھائی میں حصول انصاف کے لیے گرتا پڑتا نکل ہی نہیں سکتا اس نظام کی اصلاح کے لیے اب سیاسی جماعتوں کا یہ سیاسی عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کا عزم ایسے کہہ سکتے ہیں کہ دیر آید درست آید ہی ہے مگر یہ ہونا چاہیے کہ ایسے موقع پر جب عدالتی نظام میں نقائص کی بنا پر انصاف میں تاخیر ہو رہی ہے یہی نہیں بلکہ اج بھی بہت سے قوانین انگریز دور کے بنائے ہوئے ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی لانا ناگزیر تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اگر سیاسی جماعتوں کو اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس ہو بھی گئی ہے تو اب امید کی جانی چاہیے کہ انصاف کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور بہت جلد اسمبلیاں آٹے ہی اس عمل کو فوری طور پر مکمل کریں گے یہی نہیں بلکہ عدالتی عمل کو بھی تیز تر کرنے کی کوششیں کی جائیں تاہم یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب سیاسی جماعتیں آئیں پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں گیں کیونکہ آئیں کو موم کی گڑیا سمجھنے کا سلسلہ جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک معاملات میں سدھار آنے کی توقع کرنا ایک بھول ہے کیونکہ پاکستان کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ یہاں پر آئیں اور قانون کو حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کے مطابق استعمال کیا ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے اور دنیا کی صف میں ہم انصاف کے حصول کی رینکنگ میں بھی اتنے پیچھے چلے گئے ہیں کہ جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں آج وقت آگیا ہے کہ نوجوان نسل کو بھرپور سماجی انصاف جو نظر آئے وہ دینے کے قابل بنائیں ایسا نہ ہو کہ ایک نوعمر بچہ اپنی گاڑی تلے چھ افراد کو روند کر چلا جائے اور پھر یہ پیچیدہ نظام اسے ہی سپورٹ کرے کہ جب وہ یہ کہے کہ یہ گاڑی میری ہی نہیں اور اس کو اگر پیچھے دیکھا جائے تو کہیں وہ رجسٹرڈ ہی نہ ہو ایسی ہزاروں مثالیں اس ملک میں موجود ہیں جس سے پیچیدہ پرانے گھسے پٹے نظام کا فائدہ اشرافیہ اٹھا رہی ہے اسی وجہ سے وہ مزدوروں کا استحصال کسانوں کاشتکاروں کا استحصال اور اپنے من مرضی سے تمام وہ اشیاء جو عام آدمی کے استعمال میں ہیں ان کے نرخ مقرر کر کے فائدے پر فائدہ اٹھا رہا ہے اس میں اصلاح کی اب ضرورت آگئی ہے کہ ہم بھرپور اصلاح کریں اس عدالتی نظام کو بہتر بنائیں اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ وہ عدالتی نظام عام آدمی کو بھی سپورٹ کر سکے یہ نہ ہو کہ یہ نظام اب دوبارہ اشرافیہ کے ارد گرد گھومتا رہے اور عام آدمی کو انصاف لینے کے لیے اپنے دادا کا کیا ہوا کیس پوتے تک لے جانے میں وہ اطمینان محسوس کرے اس کو اس امر سے نکالنا ہوگا یہ نکالنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ جو نہی وہ اقتدار میں آئیں سب سے پہلے وہ یہ عدالتی ریفارمز لا کر اس سے بہتر سے بہتر بنائیں