
دن بدن گرتے ہوئے ملکی معاشی صورتحال پر عوام انگشت بدنداں ہے اور حیران ہیں کہ کیا پاکستانی قوم کا مقدر یہی تھا کہ نہ تو انہیں معاشی آسودگی حاصل ہوگی اور نہ ہی سیاسی، سیاسی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ عوام کے پاس اب کوئی راستہ ہی نہیں رہا اور نہ ہی کسی جماعت کے پاس کوئی بیانیہ ہے کہ وہ لے کر عوام کے پاس جائے مسلم لیگ ن کے لیے ایسا نگران سیٹ اپ دے دیا گیا ہے کہ شاید وہ کوئی راہ ہموار کر کے اسے عوام میں پذیرائی حاصل کرا سکے گی لیکن ایسا ہرگز ممکن ہی نہیں ہے کہ عوام ان کی طرف دیکھیں کیونکہ 40 سال سے وہی حکمران ہیں باریاں لگاتے لگاتے قوم کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کی محتاج ہیں پی ڈی ایم کے آخری دور میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی حتی کہ چینی کا بھی بحران پیدا کر کے چلے گئے جو جان بوجھ کر ہوا حالانکہ سرپلس چینی موجود تھی اس سے ظاہر ہے کہ عوام کے لیے ان کے دل میں کیا ہمدردی ہے اب الیکشن میں جانے کے لیے کسی سیاسی جماعت کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وہ کس طرح جائے اس لیے وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر لگے ہوئے ہیں کہ ہمیں خود بخود غیبی طاقتیں دوبارہ اقتدار دے دیں لیکن اگر ایسا کیا گیا تو پھر وہی حال ہوگا جو 75 سالوں سے اس قوم کا ہوتے ہوتے اج دو وقت کی روٹی کی محتاج ہو چکی ہے لوگ بلوں کے ہار بنا کر ادائیگی کی بجائے سڑکوں پر موجود ہیں پورے ملک میں بل بجلی ہی بے چینی پیدا کر چکا ہے لوگ شٹر ڈاؤن ہڑتال کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں لیکن سیاسی لیڈر ہیں کہ وہ یہاں حکمرانی کر کے ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور سابق وزیراعظم کو جب ایک صحافی نے بات کرنی چاہیے تو اس نے کہا میں یہاں لندن میں ہوں اس لیے بات نہیں کر سکتا کیا وہ پاکستان کا وزیراعظم نہیں تھا یہ بات نہیں ہے بلکہ اسے پاکستانی قوم سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ چونکہ لندن میں کھڑا تھا اپنے گھر میں وہ اسے ہی اپنا گھر سمجھتا ہے اس لیے وہ چونکہ اپنے آپ کو اسودہ محسوس کر رہا تھا اس قوم کی وہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا یہ قوم کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ کیسے حکمران ہمارے اوپر مسلط رہے ہیں یا ہم نے خود مسلط کیے ہیں جو یہاں حکمرانی تو کرتے ہیں لیکن ان کی اصل گھر بار دھن دولت جائیدادیں کاروبار بچے تمام ملک سے باہر موجود ہیں اور جونہی حکمرانی کا وقت ختم ہوتا ہے وہ باہر چلے جاتے ہیں ماضی میں بھی اسی طرح رہا کہ جب ایک کی باری اتی تھی تو دوسرا باہر رہتا تھا جب دوسرے کی باری آتی تھی تو پہلا باہر چلا جاتا تھا اس طرح سے وقت پاس کیا گیا اور قوم کا یہ حال ہو چکا ہے کہ اب ان کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں نہ ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے نہ ان کو پہننے کے لیے کوئی چیز موجود ہے نہ ان کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ مصنوعات سے لے کر اشیا ے خردو نوش خرید کر سکیں یا یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کر سکیں اس کے لیے انتہائی انقلابی انقطابات اٹھانے ہوں گے تب جا کر دوبارہ اس قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے نہ تو ان باتوں سے کہ میڈیا پر آ کر چکنی چپڑی باتیں دوبارہ شروع کر دی جائیں اور مختلف قسم کے سروے دکھا کر ایک دوسرے پر الزامات یا عدالتی جنگ جس میں ایک ملزم کو جب عدالت رہا کرتی ہے تو دوسرے روز وہ دوبارہ جیل میں ہوتا ہے کیا قوم یہی دیکھتی رہے گی اب اس بات کی سکت قوم میں نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھتی رہے یا کوئی ایسا بیانیہ لے کر جماعت آ جائے جس کی اڑ میں وہ کھڑے ہو کر انہیں ووٹ ڈال دیں اور وہ دوبارہ قوم پر مسلط ہو جائیں اب وہ وقت گزر چکا ہے اب انتہائی سخت اقدامات ہی اس ملک کو بچا سکتے ہیں اور 24 کروڑ عوام کے لیے آسودگی لائی جا سکتی ہے لیکن لگتا نہیں ہے کہ ایسا ممکن ہو کیونکہ مٹھی بھر اشرافیہ اب بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ قوم اسی طرح بکھری بکھری ریزہ ریزہ رہے اور ہم ان پر مسلط ہو کر پرانی طرز پر ہی حکومت کرتے رہیں جس میں وہ کامیاب بھی ہیں اب بھی دن رات ان کی سوچ کا مرکز و محور یہی ہے کہ پھر قوم کو کس طرح سے لالی پاپ دے کر ہم دوبارہ حکمرانی کریں لیکن شرح خواندگی کے بڑھنے اور گلوبل ولج بننے پر دنیا کے دیگر ممالک کی طرز حکومتیں ہماری عوام دیکھتے ہوئے اب یہ جان چکی ہے کہ کس طرح سے حکمرانوں نے ہماری قوم کا استحصال کیا اور انہیں اس نہج پر پہنچایا کہ اج وہ اپنے یوٹیلٹی بلز بھی ادا نہیں کر سکتے اور انہیں ہمارا نگران وزیراعظم یہ کہتا ہے کہ بل تو اپ کو بھرنے ہی پڑیں گے وہ آخر کہاں سے بھریں انہوں نے تو فریاد حکمران سے ہی کرنی ہے چاہے وہ نگران ہو یا مستقل حکمران عوام کی فریاد ہمیشہ حکمران تک ہوتی ہے یہاں تک کہ اب ضلع لیہ میں تو یہ رواج پڑ گیا ہے کہ 15 پر کال کرتے ہیں کہ ہمارے بچے بھوکے بیٹھے ہوئے ہیں تو متعلقہ تھانے کی حدود کا ایس ایچ او ان کے گھر جا کر راشن پہنچا دیتا ہے یا ڈی پی او لیہ خود ہی جا کر ان کی دل جوئی بھی کرتا ہے اور ان کے گھر راشن بھی پہنچا دیتا ہے لیکن یہ سلسلہ کب تک رہے گا اور متعلقہ ڈسٹرکٹ پولیس افیسر کب تک 22 لاکھ عوام کو یہ راشن مہیا کرے گا ایسا ہرگز نہیں ہے یہ عارضی بندوبست ہیں یہ نہیں چلیں گے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی ادائیگی ہو سکیں گی حکومت کو اب ایک سمت مقرر کرنی چاہیے بے یقینی اور گومگوں کی کیفیت کو ختم کرنا چاہیے تاکہ قوم کسی اسرے لگ سکے اج کے رائے عامہ میں ایک واقعہ کو کوٹ کرتے ہوئے قائرین کی توجہ اس طرف بھی دلاتا ہوں کہ ایسے ایسے واقعات بھی ممکن ہیں ایک سچا واقعہ سنیں۔ ایک خاتون ہیں، ان کے شوہر کی بیماری کی وجہ سے مالی حالات ابتر رہے، شوہر بیکری پر ملازم تھے۔ ہم دوستوں نے مل کر ان کی مالی مدد کی۔شوہر ہاسپٹل ایڈمٹ ہوئے تو ادویات اور بل ادا کرنے کا بھی انتظام کیا۔ لیکن علاج کے دوران وہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے۔ کسی طرح مزید رقم اکٹھی کرکے گھریلو ضرورت کے لیے بھی دے دی۔ محلے والے اور جہاں وہ ملازمہ ہیں انہوں نے اچھے انداز میں مالی معاونت کی۔ انہی دنوں مجھے فون آیا کہ عید کے تیسرے دن میاں کا چالیسواں ہے تو اس سلسلے میں کچھ مدد کریں۔
میں نے کہا بھئی چالیسویں پہ کیسی مدد؟ بولیں برادری کو بلانا ہے، سو بندہ ہوگا، کھانے اور ٹینٹ کا انتظام وغیرہ۔ پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ اول تو ہمارے ہاں چالیسویں اور دسویں کا رواج ہی نہیں پھر ان حالات میں یہ خاتون کیوں چالیسویں کے چکروں میں ہے۔ سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں ہے، جب نہ مانی تو معذرت کی کہ کم ازکم اس کام کے لیے پیسے نہیں دے سکتی بنیادی ضرورت اور چیز ہے۔
مگر ان کے گھر چالیسواں ہوا، دیگیں پکیں، ٹینٹ لگے، چائے شربت کے انتظامات بھی ہوئے۔ پوچھا تو بولیں کئی لوگوں نے پیسے دئیے ہیں تو ہو گیا چالیسواں! کیا لاکھ بھر ایک دن میں خرچ کرنے کی بجائے وہ دو ماہ آرام سے نہیں گزار سکتی تھیں؟ گزار سکتی تھیں، لیکن ان کو یقین ہے کہ دوبارہ مانگنے پر اتنے اور مل جائیں گے کون سی ذاتی محنت کی کمائی ہے۔مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا۔ جب ہم کسی کی مدد کرتے ہیں تو وہ فضول خرچی میں کیسے اڑا سکتا ہے؟ دو سال پہلے ایک خاتون نے بیٹی کے جہیز کے لییدرخواست کی، ہم نے پیسے اکٹھے کیے کہ بچی کے بیڈ روم کا سامان آجائے اور ان کو رقم دے دی۔ میری یہ عادت ہے کہ جہاں ڈونیشن دوں وہاں خود جا کر دیکھتی ہوں کہ استعمال کیسے ہوئی۔
شادی سے دو دن پہلے میں دوست کے ساتھ ان کے گھر گئی۔,,ضروری گھریلو سامان,, میں فوڈ فیکٹری، سینڈوچ میکر، LED اور بہت سا فضول سامان دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ ان خاتون سے کہا اتنا کچھ تو میرے جہیز میں بھی نہیں تھا، آپ نے یہ سب لینا تھا تو پہلے کیوں نہ بتایا، یہ سب اسراف ہے۔ وہ خاتون آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں اور پھر حسب روایت الزام لڑکے والوں کی ڈیمانڈ پہ رکھ دیا۔ میں نے کہا مجھ سے بات کروائیں ، ڈیمانڈ لسٹ دکھائیں مجھے۔۔۔ تب وہ بات بدل گئیں۔ ان دو واقعات سے پتا چلا کہ لوگ تنگدستی کو بھی کیش کرواتے ہیں، ایک ہوتی ہے بنیادی ضرورت، اور ایک ہوتی ہے,, عیاشی،، جب لوگ دیکھتے ہیں کہ امداد مل رہی ہے تو وہ مزید پر کھولنے لگتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے اب بنیادی ضرورت چارپائی نہیں، ڈبل بیڈ ہے، پیڈسٹل فین نہیں اے سی بہت ضروری ہے، کچھ تو شرم کے مارے فاقوں سے مرجاتے ہیں اور کچھ کے شوق ہی پورے نہیں ہوتے آپ کسی کی مدد کر رہے ہیں تو خوب چھان بین کرکے کیجیے، نقد رقم دینے کی بجائے وہی ضرورت اپنے ہاتھ سے پوری کریں جس کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ ورنہ وہ رحم دلی کو فارگرانٹڈ لے کر چالیسویں، LED اور اے سی میں اڑا دیں گے۔ مال مفت دل بے رحم!