
پاکستان میں امی پہلے دو صوبوں اور اب وفاق و صوبہ سندھ میں گزشتہ ماہ وجودمیں آنے والی نگران حکومتیں بھی پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل نظر آرہی ہے کیونکہ ان تمام نگرانوں کو پی ڈی ایم کی حکومتوں نے ہی منتخب کیا ہے اور انہی کی چھتر چھاؤں تلے اب یہ ان کی طرزپروزراء کی بھرتیوں کاعمل تیزی سے جاری وساری ہے ہر وزیر اپنے عزیز و اقربہ اور جان پہچان سارے لوگوں کو نہ صرف حکومتی ذمہ داریوں میں بلکہ مختلف محکموں میں بھرتیوں پر بھی عمل کر رہے ہیں یہاں سے وزیراعظم پاکستان نے تو اپنے نو عمر بیٹے کو ہی وزیر کھیل بنا کر روزگار پر لگا دیا ہے اس 21 سالہ نوجوان کے نیچے گریڈ 22 کے کئی افسران کام کر رہے ہیں جو حکومت پاکستان کی ایک نرالی شان ہے جس میں ایسا بھی تجربہ کیا جانا تھا اپنے عزیز و اقربہ وزیربنانے کے چکرمیں مگن ہیں ملک بھرمیں مہنگائی بے روزگاری غیر مستحکم سیاسی و معاشی صورتحال انتہائی مایوسی کا عالم گومگو کی کیفیت عوام پر طاری ہے بجلی بلز اورپیٹرولیم مصنوعات کے نرخ آسمان کوچھو رہے ہیں قیمتوں پر احتجاج کاسلسلہ زورپکڑرہاہے جس پر پولیس متحرک ہے اور معمولی احتجاج پر بھی گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں جو عوام کے بنیادی حقوق کی منافی ہیں جس کی کسی کوپرواہ نہیں نگران وزراملبہ آئی ایم ایف اورپی ڈی ایم حکومت پرڈال کے وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں اے روز اپنے من پسند افراد کو ان کی من مرضی کی جگہوں پر تعیناتیاں روز کا معمول بن چکی ہیں جو ان کے مینڈیٹ میں بھی نہیں ہے نگرانوں کا کام صرف اور صرف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کروانا ہے ان حالات میں قارئین کو بچن میں سناگیاایک قصہ سنا رہاہوں جو ان نگرانوں کے کاموں سے مماثلت رکھتا ہے کہ کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت انصاف پسند اور رحمدل تھا اس کی رعایا بھی اسے پسند کیا کرتی تھی بادشاہ کی کوئی اولاد نا تھی اور بادشاہ کی رانی خوبصورت تو تھی مگر کم عقلی میں اپنی مثال آپ تھی رانی بادشاہ کو ہر وقت اس بات کے لیے اکساتی رہتی تھی کہ رانی کے بھائی کو وزیر بنا دیا جائے بادشاہ اپنی رانی کی بات سنی ان سنی کر دیتا تھا ایک دن بادشاہ اور رانی محل کے جھروکے میں بیٹھے ہوئے تھے محل سے دور ایک بستی میں شادیانے بج رہے تھے کہ جیسے کسی کی بارات آئی ہو رانی نے بادشاہ سے پھر اپنے بھائی کو وزیر بنانے کی بات چھیڑ دی اور ضد کرنے لگی کہ اس کے بھائی کو وزیر بنا دیا جائے بادشاہ بڑے تحمل سے اپنی بیوی کی بات سنتا رہا اور پھر کہا اچھا اپنے بھائی کو بلاؤ
رانی خوش ہوگئی کہ بادشاہ اب اس کے بھائی کو وزیر بنا دے گا اس نے خادمہ کو کہا کہ جلدی سے اس کے بھائی کو بلایا جائے۔چند لمحوں بعد رانی کا بھائی بھی ہاپنتا ہوا بادشاہ کے حضور حاضر ہو گیا بادشاہ نے رانی کو دیکھتے ہوئے اپنے سالے سے کہا تم وزیر بننا چاہتے ہو سالے نے کہا کہ ہاں بادشاہ نے کہا کہ جاکے پتہ کر کے آؤ کہ سامنے والی بستی میں شادیانے کیوں بج رہے ہیں
سالا خوشی خوشی بستی کی جانب بھاگا اور کچھ دیر کے بعد بھاگتا ہوا واپس آیا اور کہا کہ یہ شادیانے کسی کی بارات میں بج رہے ہیں بادشاہ نے پھر کہا کہ جاؤ پتہ کرو کہ کس کی بارات ہے؟
سالا پھر بھاگتا ہوا بستی کی جانب نکل گیا اور کچھ دیر کے بعد آ کر جواب دیا کہ یہ بارات قمرو کمہار کے بیٹے کی ہے بادشاہ نے پھر سوال کیا کہ جاؤ پتہ کرو کہ یہ بارات کس گاؤں سے آئی ہے سالا پھر بھاگتا ہوا بستی کی جانب نکل گیا اور چند لمحوں بعد آکر جواب دیا کہ یہ بارات فلاں گاؤں سے آئی ہے
رانی اس پورے عمل کو غور سے دیکھ رہی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بادشاہ کیا کرنا چاہ رہا ہے۔بادشاہ نے پھر سالے سے کہا جاؤپتہ کر کے آؤ کے قمرو کمہار کے بیٹے کی شادی کس سے ہو رہی ہے سالا اب اس عمل سے تھک چکا تھا مگر وزیر بننے کی لالچ میں دوبارہ بستی کی جانب نکل پڑا اور کچھ دیر بعد واپس آکر جواب دیا کہ یہ بارات رشید کمہار کے گھر آئی ہے مسلسل کی بھاگ ڈور سے سالے کی حالت خراب ہو چلی تھی بادشاہ نے اپنے سالے پر رحم کھائے بغیر پھرسوال کیا کہ جاؤ پوچھ کے آؤکہ حق مہر کتنا طے ہوا ہے بمشکل سالا بستی کی جانب چلا اور کافی دیر بعد واپس آکر جواب دیا اب بادشاہ نے اپنے سالے کو ایک جانب کھڑے ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے وزیر کو طلب کیا وزیر کے آنے پر بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاؤ جا کر پتہ کرو کہ یہ شادیانے کیوں بج رہے ہیں وزیر فوراً حکم کی تعمیل کے لیے چل پڑا اور کچھ دیر کے بعد بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جواب دینے کی اجازت طلب کی اجازت ملنے پر وزیر نے بتایا کہ یہ شادیانے قمرو کمہار کے بیٹے کی بارات کے ہیں جو فلاں گاؤں سے آئی ہے قمرو کمہار کے بیٹے کی شادی رشید کمہار کی بیٹی سے ہو رہی ہے اور حق مہر اتنا ہے اور رشید نے اپنی بیٹی کو کیا جہیز دیا ہے یہ بارات آج ہی واپس جائے گی اور رشید کمہار بارات کی تواضع گڑ کے چاول اور اصلی گھی سے کرنے والا ہے وزیر کا جواب سن کر بادشاہ نے اپنی رانی کی جانب دیکھا رانی بہت شرمندہ ہوئی اور آئندہ کبھی اپنے بھائی کو وزیر بنانے کی ضد نہیں کی۔
کسی طاقتور کی رشتہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہر عہدے کے اہل ہیں اور اہل افراد ہی ملک کا نظام بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں اس قصہ نو ما مثال سے پاکستانی قوم اندازہ لگا سکتی ہے کہ وہ 75 سال بعد بھی کس قدر تجربات کا شکار ہے اور ابھی تک صرف اشرافیہ کے چند خاندان ہی اس ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں جس کی وجہ سے آج 98 فیصد عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کا معیار زندگی روز بروز گرتا جا رہا ہے وہ غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے ہیں اگر اب بھی ہوش کے ناخن حکمرانوں نے نہ لیے تو پھر اوپر دی گئی مثال ہم پر بھی اسی طرح غالب ا جائے گی اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصرہو(آمین)