
پاکستان کو اس وقت معاشی عدم استحکام نے اس قدر گھیر لیا ہے کہ اب یہاں روزگار کا حصول ایک بہت بڑا جوئے شیر لانے کے برابر کام ہے کیونکہ ہمارے تمام ادارے اب ایک فیملی کی شکل اختیار کر چکے ہیں جن میں متوسط اور غریب طبقہ کو جگہ لینا ممکن نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ جب کسی ادارے کے خلاف کوئی شخص کمپلیٹ کرتا ہے تو تمام ادارہ اپنے اس ایمپلائی کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور شکایت کنندہ روتا دھوتا اس سسٹم کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے روزگار کا نہ ملنا تو ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے کسی قدر تسلیم کیا جا سکتا تھا لیکن تفریق کو لے کر متوسط اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے طبقات اس دو عملی پالیسی پر شدید نالاں اور پریشان ہیں وہ اپنے بچوں کو تعلیم اتنی مشکل سے حاصل کر پاتے ہیں کہ ان کے گھر کی جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے لیکن جب وہ بچہ روزگار کے قابل ہوتا ہے تو اگے بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں جن کو پھلانگ کر روزگار حاصل کرنا اب پاکستان میں غریب آدمی کے لیے ممکن نہیں رہا دنیا میں نوجوان افراد قوت کسی کسی ملک کو میسر ہے جن میں پاکستان بھی پانچواں بڑا خوش نصیب ملک ہے لیکن یہ ہنر بن نوجوان جو اپنے ملک و قوم کی خدمت بہتر سے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں انہیں یہاں مواقع نہیں دیے جا رہے اور وہ اس سسٹم کی بھینٹ چڑھ کے بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں رواں سال 9 لاکھ پاکستانی بیرون ملک روزگار کے حصول کے لیے جا چکے ہیں یہ نوجوان جن کی زیادہ تر تعداد یورپی ممالک میں گئی ہے اسی طرح کئی لاکھ پاکستانی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں روزگار کے حصول کے لیے جا چکے ہیں بحرین، عراق، ملائشیا، عمان، قطر،ترکی، رومانیہ، پرتگال میں بھی پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع میسر ائے جہاں وہ دوڑے چلے گئے بلاشبہ کسی بھی ملک کی سب سے بڑی دولت اس کی اپنی افرادی قوت خصوصا نوجوان نسل ہوتی ہے جس کی تعلیم و تربیت کا مناسب اہتمام قومی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے پاکستان قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ نو عمر افرادی قوت کی دولت سے بھی اسی طرح مالا مال ہے ہماری چوتھائی ارب کی آبادی میں 30 سال سے کم عمر نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد سے بھی زائد ہے اس اعتبار سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو ہنر مند بھی ہیں تازہ دم بھی ہیں اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی انتہائی تیزی سے کر سکتے ہیں اس کے برعکس ترقی یافتہ ملکوں جن میں مغربی دنیا میں شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے بوڑھے افراد کا تناسب بڑھتا چلا جا رہا ہے جو معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے دشواری کا سامنا کر رہے ہیں وہ نو عمر افراد قوت کو باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں اس لیے ہمیں اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کی قیمت پر اپنی تربیت یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کو بیرون ملک نہیں بھیجنا چاہیے بلکہ ملک کے اندر ہی ہمہ قسمی روزگار کے مواقع بلا تفریق انہیں میسر کرانے کے لیے حکومتیں اقدامات اٹھائیں ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جن میں روزگار کے پرکشش مواقع موجود ہوں اور تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا جائے ہمارے تمام نوجوان روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری سے بچتے ہوئے اپنے کنبوں کی کفالت کے لیے باہر جاتے ہیں ورنہ انہیں ہرگز باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے اس لیے اس باصلاحیت ہنر بند اور محب وطن نوجوان نسل کو اپنے ملک میں محفوظ رکھنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے حکومتوں کو اپنے رویے بدلنے ہوں گے اداروں میں کوٹا سسٹم ایک خاندان بن جانا متوسط آدمی کو نہ آنے دینا اقربہ پروری رشوت سفارش اس کو ختم کرنا ہوگا نوجوانوں کا اعتماد ملک کی تعمیر و ترقی پر بحال کر کے انہیں ترقی کے دھارے میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے یہ 9 لاکھ کا گراف کروڑوں تک جا پہنچے گا اور جن ممالک کا اوپر ذکر کیا ہے پھر اس سے بھی کم تر وہ ممالک جہاں معمولی کام بھی میسر آتا ہوگا وہ نوجوان جانے پر مجبور ہوں گے اس سے انہیں بچایا جائے قوانین تبدیل کیے جائیں اقربہ پروری سفارش کلچر کو ختم کیا جائے اور اپنے نوجوانوں کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے ہی اداروں میں کھپایا جائے یہ دیکھنا کہ یہ کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے یہ کون ہے یہ کہاں سے آیا ہے اگر ہم اس چکر میں پڑے رہے تو یاد رکھیں یہ نوجوان افرادی قوت اپنے ہاتھوں سے کھو بیٹھیں گے یہاں بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوگا اور اتنا بڑا نوجوانوں کی افرادی قوت رکھنے والا ملک جو آج دنیا میں پانچواں مقام رکھتا ہے وہ کہیں دور چلا جائے گا اس وقت سے اپنے اپ کو بچانا ہمارے حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہونا چاہیے بہت ہو گیا ہے اشرافیہ نے اس ملک پر 75 سال مزے لوٹ لیے ہیں اور ان کی ناقص پالیسیوں سے آج ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے یہی نہیں سیاسی عدم استحکام بھی ہمیں کھائے جا رہا ہے اب اس کو بچانا ہوگا یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کوئی جماعت اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم قوم بننے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں