
ضلع لیہ میں ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پر گندم کی کاشت کا ٹارگٹ محکمہ زراعت کو دیا جاتا ہے اور ہمیشہ اسی کے لگ بھگ کاشت بھی ہو رہی ہے ضلع لیہ گندم کی کاشت کے لیے ڈویژن بھر میں ایک بڑا ضلع کہلاتا ہے جس میں خریداری کے لیے محکمہ خوراک اور وفاقی ادارہ پاسکو بھی موجود ہے جو دونوں خریداری کرتے ہیں کاشتکاروں کو زمین کی تیاری اعلی معیار کے نئے بیج فراہم کرنے اور انہیں زیادہ پیداواری صلاحیتوں کے بیج فراہم کرنا محکمہ زراعت اور سیڈ کارپوریشن کی ذمہ داری ہے جس کے لیے وہ ڈپٹی کمشنر کو بھی رپورٹ کرتے ہیں کہ اتنی تعداد میں بیج ضلع میں آ چکا ہے اس کے علاوہ زمین کے بارے میں کہ وہ کیسی زمین ہے اس کو کس طرح سے تیار کیا جائے اور اس میں گندم کی بہتر پیداوار کے لیے کون کون سی کھادیں ڈالی جائیں محکمہ زراعت کا فیلڈ سٹاف انہیں آگاہی کے لیے فارمر ڈیز اور کسان بیٹھک ان کے اکٹھ کر کے ایسا کر رہا ہے لیکن ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ کے لیے ہر کھیت تک پہنچنا گو ان کی ذمہ داری ہے لیکن اتنی بڑی افرادی قوت نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو پاتا جس کے لیے کسان تشنگی کا شکار رہتا ہے اس سے کبھی بھی محکمہ زراعت سے اتنی سہولیات میسر نہیں آئیں اور نہ ہی بروقت سیڈ کارپوریشن نے آگاہی دی ہے کہ یہ بیج لگائیں تو آپ کی فی ایکڑ پیداوار بہتر ہوگی متناسب کھادوں اور ذرعی ادویات کے استعمال کے بارے میں بھی انہیں وقت پر آگاہی نہیں دی جاتی بلکہ یہ کسان سینہ گزٹ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے چین کی شکل میں ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ تک تمام کاشتکار جتنے بھی زمین میں گندم کاشت کر رہے ہیں وہ ایسے ملے ہوئے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے آگاہی کے ذریعے اپنی زمینوں کی تیاری آبپاشی کھادوں اور ذرعی ادویات کا استعمال کر رہے ہیں اچھے بیج صرف سفارش کی بنیاد پر بڑے بڑے کاشتکاروں کو ضرور مہیا کیے جا رہے ہیں جبکہ ضرورت ہمیشہ اس بات کی رہتی ہے کہ چھوٹا کاشتکار زیادہ سے زیادہ مستفید کیا جائے لیکن جیسا ہمارے ملک میں ایک رواج ہے کہ یہاں جس طرح شرافیہ مستفید ہو رہی ہے امیر کے لیے قانون الگ ہے غریب کے لیے الگ اسی سلسلے کی یہ کڑی بھی ہے کہ کسان بھی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا ہے بڑے کسانوں کو محکمے کی خدمات ان کی دہلیز پر حاصل ہیں جبکہ چھوٹا کسان بالکل اگنور کیا جا رہا ہے اسے ہمیشہ ہر کسان بیٹھک سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے جونہی گندم پک کے تیار ہوتی ہے اس وقت ہر دو محکموں کو ایک ٹاسک دیا جاتا ہے کہ وہ اتنی گندم فوڈ سیکیورٹی کے لیے ضلع میں کاشتکاروں سے ذمین داروں سے خرید کر کے اپنے گوداموں میں سمیٹ لیں جس کے لیے ضلع کی تمام مشینری حرکت میں آ جاتی ہے اور اگر وہ گندم نہیں دے رہے ہوتے تو ان کے گھروں دوکانوں چھوٹی آڑھتیوں اور فلور ملز جنہیں ایک مخصوص تعداد میں گندم رکھنے کی اجازت بھی ہوتی ہے وہاں سے بھی اٹھا لی جاتی ہے لیکن آج جب گندم کاشت ہو رہی ہے اس وقت ہی یہ غور کر لیا جائے اور انہیں معیاری بیج اور کھاد کنٹرول ریٹ پر دے دی جائے تو پھر کسان کا کوئی گلہ باقی نہیں رہے گا اور گندم کی بھی پمپر کراپ ہوگی جس سے دونوں محکموں کو اپنے اپنے اہداف پورے کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور وہ انتظامی افسران کی مدد حاصل کیے بغیر اپنی دہلیز پر ہی مقرر کردہ سینٹرز کے ذریعے گندم حاصل کر لیں گے لیکن آج ایسا ہو رہا ہے کہ جب کسان گندم کاشت کر رہا ہے اسے کھاد اور بیج کے لیے مارا مارا پھرنا پڑتا ہے نہ ہی اسے ڈی اے پی کنٹرول ریٹ پر مل رہی ہے نہ اس کے لیے وہ مجسٹریٹس جو ان دنوں گندم اٹھانے کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مار رہے تھے آج ان کے ہم پلہ ہو کر ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے انہیں کھاد مہیا کرانے میں ان کی کوئی مدد نہیں کر رہے یہ انتظامی افسران کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ 24 لاکھ شہریوں کو فوڈ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو اور ضلع کی بمپر کراپ کے ذریعے ضلعی معیشت بھی بہتری کی جانب بڑھے اس کے برعکس کاشتکار کا کوئی پرسان حال نہیں اور وہ کھاد مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے یہ بلیک میلنگ اس لیے کی جاتی ہے کہ کسان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہوتا ہے انہوں نے اپنا کھیت کی تیاری اور دوبارہ گندم اگانے کے لیے اس قلیل وقت میں ہی تمام کام کرنے ہوتے ہیں وہ سود خوروں کے نرغے میں بھی آٹا ہے وہ کھاد مافیا سے بھی بلیک میل ہوتا ہے اور تب جا کر وہ کھاد حاصل کر پاتا ہے اس کے برعکس بااثر بڑے کاشتکار اور ذمندار ہمیشہ کنٹرول ریٹ پر کھاد حاصل کرتے ہیں انہیں تمام محکموں کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں یہ دو عملی ختم کرنے کے لیے ضلع کے ڈپٹی کمشنر جو اب ضلع کی عوام کے لیے ہر دل عزیز بنتے جا رہے ہیں کیونکہ وہ ہر جگہ جاتے ہیں ان کا یہ بہت اچھا رویہ ہے کہ جونہی انہیں کہیں سے شکایت ملی ہے وہ اس مقام تک ضرور پہنچے ہیں ایسا کم و بیش ڈپٹی کمشنر عہدہ کے افسران کرتے ہیں لیکن خالد پرویز کا یہ خاصہ ہے کہ وہ عام آدمی کی اواز سنتے ہی اس کی شکایت دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ جاتے ہیں آج بھی وہ ان کی آواز بنیں اور کنٹرول ریٹ پر کھاد مہیا کرنے کے لیے کسان کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ کاشتکار کنٹرول ریٹ پر حاصل کردہ کھاد سے ہی اپنی فصل اگا سکیں