کالم

گنے کی فصل تیار، شوگر ملز بند، کاشتکار پریشان

مصنف : ریاض احمد

کاشتکار کسان ایک ایسا نام ہے جس کے ساتھ ہمیشہ ترجیحی سلوک کیا گیا ہے اسے کبھی بھی معیشت میں ایک بڑا سٹیک ہولڈر ہونے کے باوجود بھی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا گیا وہ کاشتکار چاہے ریونیو افس جائے یا پولیس میں جائے یا دیگر کسی بھی ادارے میں کبھی اسے کہیں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ مبینہ رشوت کی وصولی کیلئے بھی کاشت کار کو آسان ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے یہ کاشتکار جب کھاد بیج زرعی ادویات حاصل کرنے کے لیے متعلقہ ڈیلرز و دکانداروں اور محکمہ زراعت کے پاس جاتا ہے تو ہمیشہ اسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے زرعی ادویات کھادیں بیج ملاوٹ شدہ غیر معیاری ہمیشہ اسے دی جاتی ہیں بعد ازاں اس کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوتا حکومتی سبسڈی اگر اسے سکریچ کارڈ دیا جائے تو وہ اکثر اوقات میں استعمال شدہ ملتا ہے وہ کاشتکار ہے جو دھوپ چھاؤں سردی گرمی ننگے پاؤں وہ ہمیشہ کھیت میں فصلوں کی تیاری اور بار آور ہونے تک اپنے تمام کنبے کے ساتھ سرگرم عمل ہے پاکستان کی معیشت میں اس کا ایک بہت بڑا کردار ہے لیکن اسے اس کا مقام دلانے کے لیے کسی بھی غیر سرکاری تنظیم یا سرکاری اداروں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا اب پوزیشن یہ ہے کہ ملک بھر میں گنے کا کرشنگ سیزن شروع ہونے والا ہے اس لیے گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا یہ وقت ہے وفاقی حکومت نے 370 روپے مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اس کے برعکس صوبہ سندھ میں 425 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کرنے کی سفارشات اور پنجاب میں نگران وزیراعلی کو امدادی قیمت 425 سے 450 روپے فی 40 کلوگرام رکھنے کی تجویز دی گئی چینی کے مارکیٹ نرخوں کے تعین میں گنے کی امدادی قیمت کو ہمیشہ بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اسی پر ہی چینی کے نرخ مارکیٹ کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس غریب کاشتکار سال بھر اس کا منتظر رہتا ہے ان دنوں پورے ملک میں چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے اسے ہینڈلنگ کرنے والے فائدہ اٹھا رہے ہیں ایسے مواقع پر شوگر مل مالکان اور چینی کے بڑے ڈیلر آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کو بنیاد بنا کر آئندہ کے لیے نئے نرخ مقرر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں میل مالکان کے بارے میں ہمیشہ یہ تاثر رہا ہے کہ ان کی جانب سے گنے کی قیمت خرید کم رکھی جائے اور چینی کے نرخ زیادہ مقرر کیے جائیں اس میں ہوتا یہ ہے کہ کاشتکار اور صارفین دونوں طبقے پس جاتے ہیں تیسرا فریق چینی کی تھوک مارکیٹ میں مصنوعی بحران پیدا کر کے ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے اس شدید ترین مہنگائی اور پست ترین فی کس آمدنی کے اس دور میں چینی ہی نہیں اس سے بنی تمام مصنوعات مشروبات غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں امدادی قیمت کا تصور بے شک غریب کاشتکار کی معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے ہے اور اسے یہ حق ضرور ملنا چاہیے لیکن صارفین کو بھی اشیائے خردو نوش مناسب قیمتوں پر میسر کرانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ متعلقہ حکومتیں گنے کی امدادی قیمت ایسی رکھیں جس سے کاشتکار کو بھی فائدہ ہو نہ کہ وہ مل مالکان کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہیں کم از کم امدادی قیمت 450 روپے مقرر کی جائے تاکہ کاشتکار اپنی لاگت منافع کے ساتھ حاصل کر سکے اور اپنی فصل کا اسے مناسب معاوضہ بھی ملے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر وہی پرانی بھیڑ چال ہوگی اور کاشتکار نقصان میں رہے گا مل مالکان فائدہ میں رہیں گے اسی لیے انہوں نے ایکا کر کے ابھی تک ملز چالو ہی نہیں کی کیونکہ اگر شوگر ملز چالو کر دی جائیں تو کاشتکار اس اراضی پر گندم کاشت کر کے اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ملک کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ اس وقت ملک میں گندم کا بھی شدید بحران ہے اور گندم باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے اس لیے فوری طور پر امدادی قیمت کا تعین کر کے شوگر ملز چالو کی جائیں تاکہ کاشتکاروں کے معاشی حقوق کا تحفظ بھی کیا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button