کالم

ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں

مصنف : ریاض احمد

روز بروز گرتے ہوئے ملکی معاشی حالات بے روزگاری کی بڑھتی شرح اور مزدوروں کے لیے روزگار کا نہ ہونا کاشتکاروں کے زرعی مداخل میں بڑھتا اضافہ ہمیں ہر طرف سے اتنی تیزی سے گھیر رہا ہے کہ ہم انتہائی غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے اب بھی بڑھتی مہنگائی ظاہر کر رہی ہے کہ ملک میں غذائی اشیاء کی شدید کمی ہے ہمارے پاس لاکھوں ٹن پیدا ہونے والی باجرے کی فصل مکمل طور پر گزشتہ دو سالوں سے نہ ہو سکی جس کی وجہ سے مویشیوں کے ونڈے میں گندم کے استعمال سے یہاں گندم کی بھی شدید قلت پیدا ہوئی ہے اس چھوٹی سی مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گرتی معاشی صورتحال میں کس قدر نہ عاقبت اندیشی اور غلط منصوبہ بندی سے ہم ایک ایسی سمت کی طرف جا رہے ہیں اس سے واپسی ممکن ہونا نہایت ہی تاریک نظر آتا ہے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو ہمہ قسم کی طفل تسلیوں سے بہلانے اور اپنے اپنے نئے نئے منشور کے ذریعے ایک بار پھر میدان عمل میں ہیں کہ وہ کسی طرح سے بھی ووٹ کے حصول کو ممکن بنا کر سولو فلائٹ کے ذریعے سبز باغ دکھاتے ہوئے انتخابات میں اپنی جیت کو ممکن بنا لیں کسی بھی فریق کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان ڈیویلپمنٹ اپڈیٹ رپورٹ 2023 میں یہ انتباہ کر دیا ہے کہ پاکستان گزشتہ ایک سال میں مزید ایک کروڑ 25 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں اسی طرح ایک سال میں غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 4۔39 فیصد تک پہنچ چکی ہے یہ چشم کشا رپورٹ حکومتی توجہ کی متقاضی ضرور ہے لیکن اس پر دھیان دینے کی بجائے ہمارے نگران حکمران خود کو غیر ضروری معاملات میں اس قدر الجھا چکے ہیں کہ انہیں عوام کے مسائل بھی یاد نہیں رہے اس لیے تو عوام کو مہنگائی کے زہر آلود کلہاڑے کھانے کے لیے تن تنہا چھوڑ دیا گیا پاکستان آج جن معاشی خطرات سے نبرد آزما ہے اس میں معاشی عدم استحکام پہلے نمبر پر آتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑی جوانمردی کے ساتھ لڑی ہو اور 80 ہزار جانوں کا نظرانہ دے کر ملک کو امن کی طرف لوٹایا ہو اور اپنی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان بھی برداشت کیا ہو تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومتیں معیشت کی بحالی کی طرف بھرپور توجہ دیتی لیکن ہمارے ہاں تمام آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اسی لیے تو عوام پر مسائل کا بے پناہ بوجھ بنا سوچے سمجھے لاد دیا گیا ہے اور اب ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری معاشی سرگرمیوں کے مانند پڑنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار اس حقیقت کو جان لیں کہ وینٹیلیٹر پر موجود معیشت کو قرض لے کر مزید نہیں چلایا جا سکتا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں جو آئندہ الیکشن میں جیت کا دعوی رکھتی ہیں اور عوام پر حکمرانی کرنا چاہتی ہیں وہ ان غریب عوام کے مسائل کا سنجیدگی سے ادراک کریں کیونکہ اب بھی سیاست دانوں نے مجبور اور بے بس طبقے کے مسائل کا ادراک نہ کیا تو معاملہ بہت آگے تک چلا جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی اور بیرونی دنیا سے ملنے والے قرض کی بھی ایک حد ہوتی ہے جو ختم ہو جائے گی اور ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا جس سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ ہماری عوام غربت کی لکیر سے نیچے جانے میں انتہائی تیزی کا شکار ہوگی اور یہاں پر پھر امن و امان اور انارکی جنم لینے لگے گی اس سے بچنے کے لیے اور عوام کو حوصلہ طاقت اور امید دلانا ہمارے سیاست دانوں کی انتہائی ذمہ داری ہے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ آپس میں پھر پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے الزامات الزامات کھیلتے رہیں مقدمات درج ہوتے رہیں فیصلہ کسی کا نہ ہو کسی کو جیل میں ڈال دیا جائے کوئی جلسے کر رہا ہو اور پھر ایک نئی حکومت وجود میں آے جس کو ماننے والا کوئی بھی نہ ہو تو یہ وقت ہمیں بہت زیادہ نقصان کا باعث بنا دے گا قوم بہت پیچھے دھکیل دی جائے گی اور ابھرنے کے لیے اتنی طاقت درکار ہوگی کہ جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے پھر معاملہ ایسا ہوگا کہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں پر منتج ہو سکتی ہے

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button