
آج ایک ایسے دور میں ہماری 24 کروڑ عوام میں سے ساڑھے اٹھ کروڑ عوام غربت کی لکیر کے نیچے جینے پر مجبور ہے جس کو ایک وقت کی روٹی کے لیے بھی پورے خاندان سمیت محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے وہ بھی یوں ممکن ہے کہ ہم غذائی قلت کا شکار ضرور ہیں لیکن مکمل طور پر غذائی اجناس کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا لیکن یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم اس طرف جا رہے ہیں کہ ہمارے پاس 24 کروڑ عوام کے لیے غذائی اجناس مکمل طور پر موجود ہوں ابھی ہم اپنے قرض سے یہ اجناس خرید کر عوام کو مہیا کر رہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ غربت کی لکیر نیچے رہنے والوں کی بڑھتی تعداد یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں لوگ بھوکوں مرنے پر مجبور ہوں گے جو آج خود کشیاں کر رہے ہیں اس وقت سے پہلے کہ ملک میں غذا کے لیے انارکی پھیلے ہماری سیاسی جماعتیں اور حکمران اب بھی شادیانے بجا رہے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوے لے کر عوام کے پاس جائیں گے کیا ہی ممکن ہوگا کہ وہ ساڑھے آٹھ کروڑ عوام جن کو اپنی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ ووٹ ڈالیں گے یا یہ کھیل کہ فلاں الیکشن لڑے اور فلاں نہ لڑے فلاں اتنی مدت بعد ملک سے باہر رہنے کے بعد یہاں ہیرو بن کر آ رہا ہے اسے قبول کیا جائے لوگوں کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کوئی پریس کانفرنس کرے کوئی نہ کرے کوئی کسی جماعت میں جائے نہ جائے کوئی کہیں سے ٹکٹ لے نہ لے جماعتیں بنے نہ بنے انہیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ ملک میں بہتر روزگار ہو فوڈ سیکیورٹی ہو عوام کو بجلی پانی روٹی سستی ملے اور اگر روزگار کی فراوانی ہوگی تو پھر مہنگی اشیاء بھی سستی لگیں گی ان باتوں کی طرف حکمران دھیان نہیں دے رہے بلکہ وہ اب بھی 1985، 1996 کا کھیل کھیل رہے ہیں جیسا کہ
چینی چور، اٹا چور، چینی چور، اٹا چور، یہ صدائیں دور نہیں صرف ایک سال قبل ہی اج کے پی ڈی ایم کے تمام حکمران اپنے عوامی اجتماعات میں لگا رہے تھے جس پر پی ٹی آئی کی حکومت نے کاروائی بھی کی اور سزائیں بھی دی گئیں حکمران چونکہ بڑے طاقتور اور ان کے ساتھ اشرافیہ کا ایک مخصوص طبقہ شامل حال ہوتا ہے اس لیے عوام ایک طرف ہوتی ہے اور ایک طرف حکمران اشرافیہ اور ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے ہوتے ہیں اس لیے عوام سیاستدانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ سیاست دان عوام کا بہت کچھ بگاڑ لیتے ہیں انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیے جاتا ہے انہیں سماجی انصاف سہولیات چادر چار دیواری کا تحفظ ان کی جان و مال کو محفوظ بنانا انہیں بنیادی حقوق دے کر روزگار کے قابل بنانا روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا معیشت کی بہتری کے لیے تجارتی راہیں کھولنا کاشتکاروں کو ان کے معاشی حقوق کا تحفظ فراہم کرنا تجارتی حلقوں میں تاجروں کو تمام حقوق دینا اور حکومت کے زیر اثر انرجی گیس پٹرولیم مصنوعات کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ایسے چیدہ چیدہ معاملات کے علاوہ بھرپور سیکیورٹی کور کے ذریعے انہیں اس بات کا تحفظ دلانا کہ حکمران ان کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار ہیں کہ عوام اپنا کام محنت لگن اور دیانت داری سے کر کے ملک کو ترقی دیں اور حکمران ان کے لیے ان کا بازو اور سایہ ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے اس کے برعکس ہو رہا ہے حکمران طبقہ اور ان کے ساتھ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہو رہی ہے جبکہ عام ادمی غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے اس کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے نہ ہی اس کے لیے کوئی سبسٹیٹائز نظام دیا جاتا ہے بلکہ دفاتر میں بھی انہیں ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے کہ وہ بغیر ریفرنس صحت تعلیم زراعت سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں بلکہ حکمرانوں کے جو پیارے ہوتے ہیں انہیں ہی کام کرنے کی سہولیات دی جاتی ہیں اگر کوئی ٹھیکہ دیا جاتا ہے تو وہ بھی انہیں دیا جاتا ہے چاہے وہ ایس او پیز کے مطابق کام کریں یا نہ کریں اس لیے ملک کا نظام انتہائی بدحالی کا شکار ہے کہ کوئی آدمی کسی بھی سرکاری ادارے سے اپنے لیے اسانی سے کوئی کام لے سکے نوجوانوں کے لیے بلا سود دیا جانے والا قرضہ بھی انہیں دیا جاتا ہے جو حکمرانوں کے منظور نظر ہیں اور ابھی گزشتہ دنوں اسمبلی میں یہ صدا گونجی کے بلا سود قرضہ لینے والے 600 سے زائد افراد کے نام بھی نہیں دیے جاتے کہ عوام دیکھ نہ لیں کہ ان کو تو قرضہ بلا سود دیا گیا ہے لیکن جو مستحق تھے انہیں نہیں ملا حالانکہ دنیا بھر میں میرٹ اور شفافیت اسی میں ہوتی ہے کہ تمام معاملات عوام کے سامنے شفاف انداز میں رکھے جائیں لیکن یہاں ایسا ہرگز نہیں ہو رہا جس سے عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں سیاسی جماعتوں پر عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے اور وہ انتہائی بد دلی کی حالت میں کسمپرسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو اس قابل ہو کہ جسے سراہا جا سکے کہ وہ عام آدمی کے لیے کام کر رہا ہے گزشتہ کچھ دنوں سے بلا وجہ چینی اور اٹے کے نرخ روز بروز بڑھ رہے ہیں اور ایک روز کچھ ریٹ ہوتا ہے تو دوسرے روز کچھ ریٹ ہوتا ہے چینی شہری علاقوں میں 150 روپے جبکہ دیہی علاقوں میں 200 روپے تک فروخت ہو رہی ہے یہی حال اٹے کے تھیلے کا ہے کہ جس کی قیمت اگر گورنمنٹ نے 1158 روپے 10کلو گرام تھیلہ مقرر کی ہے تو اس کے برعکس یہ اٹا دگنی قیمت پر عوام کو مل رہا ہے روٹی ہے تو کہیں 15 روپے میں مل رہی ہے کہیں 20 روپے میں مل رہی ہے ایسا کیوں ہے وہ اس لیے کہ حکمرانوں کی توجہ صرف اپنے مقدمات کو ختم کرانے اسمبلی میں ایسے بلز پاس کرانے جن سے صرف ان کی جماعتوں کو فائدہ پہنچے میں لگا ہوا ہے جس سے سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور سفر عوام کر رہی ہے اگر موجودہ پنجاب نگران سیٹ اپ صرف تھوڑی سی تگ و دو بھی کرے جیسا کہ سیکرٹری خوراک پنجاب نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا
آپ کے علم میں یقینا یہ بات ہوگی کہ اس سال حکومت نے گندم کی قیمت عالمی منڈی کے مقابلے میں کافی بہتر مقرر کی ہے۔ پنجاب کے کسانوں کو اس سال فی من 3900 روپئے گندم کی قیمت ملی جبکہ عالمی منڈی میں اس کا ریٹ تقریبا 3300 روپئے فی من ہے۔جب کسان کے ہاتھ سے گندم نکل گئی تو آڑھتیوں اور ذخیرہ اندوزوں نے منافع کے لالچ میں گندم ذخیرہ کر لی ہے اور کچھ مافیاز کے ساتھ مل کر گندم کی قیمت کو مصنوعی طور پر بڑھا رہے ہیں۔ اس طرح کے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے محکمہ خوراک نے یہ فیصلہ کیا ہیکہ ذخیرہ شدہ گندم ضبط کر کے حکومت پنجاب کی گندم کی مقرر کردہ قیمت 3900 روپئے فی پر Grind کروا کر صارفین کو حکومت کے متعین کردہ نرخ 1158 روپئے فی دس کلوگرام تھیلہ سے بھی کم پر آٹا فراہم کیا جائے گا۔
ان گراں فروش ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کیلئے عوام اٹھ کھڑے ہوں اور گندم کے ذخیرہ کی اطلاع دیں۔ سیکرٹری خوراک کے یہ احکامات عوام کے لیے حوصلہ افزا ضرور ہیں کہ عوامی تعاون اور مشاورت سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے یقینی طور پر گرام فروشی پر قابو پایا جا سکتا ہے اسی طرح کے اقدامات چینی ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف بھی کیے جائیں کیونکہ سابقہ نرخوں پر چینی مافیاز نے چینی خرید کر شوگر ملز کے اندر ہی رکھی ہوئی ہیں حکومتی اداروں کے افسران کو چاہیے کہ وہ ملز سے چینی اٹھا کر براہ راست اپنے پوائنٹس قائم کر کے ان پر چینی کی فراہمی مقرر نرخوں پر کر سکتے ہیں جس سے اٹے اور چینی دونوں کی گراں فروشی کو روکا جا سکتا ہے اور اس وقت معاشی بدحالی کی شکار عوام کو کچھ فائدہ مل سکتا ہے لیکن اگر حکمرانوں نے مصلحت سے کام لیا تو پھر اسی طرح عوام گراں فروشوں کے ہاتھوں لٹتی رہے گی اور بلا وجہ مقررہ نرخوں سے زائد پر آتا اور چینی خرید کرنے پر مجبور ہوگی اس سے بیکری مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جو مہنگائی کا ایک بہت بڑا سیلاب لے کر ائے گی اس پر قابو پانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو صوبائی حکومت ایک ٹاسک دے تاکہ وہ ذخیرہ اندوزوں پر نظر رکھتے ہوئے وہاں سے چینی اور ذخیرہ کی گئی گندم کو اٹھا کر کرش کر کے عوام کو مقرر نرخوں پر فراہم کی جا سکے اور ذخیرہ کی گئی چینی مقررہ پوائنٹس کے ذریعے ارزاں نرخوں پر فروخت کر کے عوام کو سہولت فراہم کی جا سکتی ہے جسے پورا کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داریوں میں بھی شامل ہے نگران حکومتیں بجائے عام سے عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے ائے روز تبادلے کرنے پر لگی ہوئی ہیں اور وہ اپنی اصل ذمہ داری جس کے لیے انہیں یہ ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں کہ وہ ملک میں منصفانہ غیر جانبدارانہ الیکشن کروانے کی ذمہ داری پوری کریں اس کے برعکس وہ سیاسی عملداری میں بھی شامل ہو کر اپنی غیر جانبداری کو بھی ایک معمہ بنا رہی ہیں جو کہ اب عام عوام بھی سمجھنے لگی ہے کہ انہیں عوامی فلاح و بہبود اور انہیں سیکیورٹی فراہم کرنے روزگار کے مواقع کی بجائے وہ کسی اور طرف اپنا دھیان دیتے ہوئے سرکاری وسائل کا استعمال کر رہے ہیں اس وقت عوام کو دو وقت کی روٹی اور مکمل امن و امان کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لیے نگران حکومتیں اپنی ذمہ داریاں مینڈیٹ کے مطابق پورا کریں تاکہ عوام انہیں یاد رکھے.