سستا آٹا بند، مفت آٹے کی ناقص حکمت عملی

نگران حکومت ایسے لگاتی ہے جیسے 100 دن نہیں برسوں حکومت کرنے آئی ہو۔ چیف سیکرٹری سے پٹواری کی تبدیلی کے بعد صرف ایک سیاسی جماعت کو خوش کرنے کے لیے نئے منصوبے عوام کے لیے وبال جان بن رہے ہیں۔ ماہ صیام کے مقدس دن آئیں۔ روزے کی خوشیوں میں اپنا حصہ ڈالنے اور عید کی خوشیاں منانے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بہت زیادہ ریلیف فراہم کر کے بازاروں میں کھانے پینے کی تمام اشیاء، کپڑے اور سجاوٹ کی اشیاء سستے داموں دستیاب ہیں۔ مخیر حضرات ایک بڑی میز سجاتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ عوام کو رعایتی نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن حکومت نے گزشتہ سال خریدی گئی گندم اسی ریٹ پر 1800 روپے میں فراہم کرنے کی بجائے 4000 روپے میں آٹا فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ آٹے کا تھیلا جو 660 روپے میں ملتا تھا اب ریلیف ختم ہونے کے بعد 1160 روپے میں ملے گا۔ جس کے لیے نئی گندم کی آمد تک آٹے میں مبینہ بدعنوانی کا بازار گرم رہے گا اور اپنے صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل ایپ متعارف کراتے ہوئے رمضان المبارک کے لیے صرف چند مخصوص پوائنٹس پر مفت آٹے کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جس سے ضلع لیہہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے ایک فیصد بھی مستحق خاندان مستفید نہیں ہو رہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ تخت لاہور کی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور ہے۔ اس کا صلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ کار ایک دن میں ناکام ہوگیا۔ آٹے کے ہزاروں تھیلے لینے سرکاری سکولوں میں قائم مراکز تک کوئی نہیں پہنچا۔ جب کہ خاص لوگوں کے لیے مخصوص دکانوں پر اتنا رش اور لمبی قطاریں تھیں۔ مستحق مرد و خواتین خالی ہاتھ لوٹے، سفید پوش طبقے کی عزت نفس کا بھرم بھی نہیں رکھا گیا اور یہ بھی حیران کن ہے کہ غریب صرف پنجاب میں رہتے ہیں یا پنجاب میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ اس مفت آٹے کی فراہمی کا دائرہ صرف پنجاب ہی نہیں پورے پاکستان میں ہونا چاہیے تھا اور روزانہ کی بنیاد پر اتنی کم مقدار میں آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے کہ مستحقین کو موبائل ایپ کے ذریعے آنے والا پیغام دکھا کر آٹا حاصل کرنا پڑتا ہے۔ یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ضلع کی 14 فلور ملوں سے آٹے کے تھیلے ہی فراہم نہیں کیے جاتے، لیکن پورا میکنزم اس قدر ناقص ہے کہ لمبی لائنیں ذلت آمیز دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہاں، سچ پوچھیں تو انہیں دکانوں پر سستا آٹا فراہم کیا جاتا تھا، اگر گرانٹ مل جائے اور انہیں یہ آٹا مفت ملنا شروع ہو جائے تو نہ صرف رش کم ہو جائے گا۔ بلکہ اس کی اصل روح کے مطابق لوگ مستفید ہو سکیں گے۔ کہ یا تو مستحقین کے کھاتے میں رقم بھیجی جاتی تاکہ وہ آٹا خرید سکیں، لیکن اگر صرف آٹا ہی مقصود ہو تو اس کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ گاؤں، قصبوں، شہروں میں اتنے وسیع مقامات پر آٹا تقسیم کیا جائے۔یہ بات رکھی جائے کہ اس اسکیم سے استفادہ کرنے والے اپنا حصہ کہاں سے وصول کریں تاکہ جس مقصد کے لیے حکومت نے یہ اسکیم شروع کی ہے وہ پورا ہوسکے۔ یہ سب سستی کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں 1800 روپے میں خریدی گئی گندم 4000 روپے میں آٹے میں تبدیل ہو جائے، میں اسے بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا سکوں، یہ فائدہ براہ راست حکومت اور عوام کو جائے گا۔ پیسہ عوام کی جیبوں سے نکلے گا۔